jab koi ghum mujhe satata hai
جب کوئی غم مجھے ستاتا ہے
کیوں اسی کا خیال آتا ہے
اک اداسی سے میری پلکوں پر
اک ستارہ سا جھلملاتا ہے
سامنے میرے ایک منظر ہے
کوئی رہ رہ کے مسکراتا ہے
سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے
وقت آخر تو بیت جاتا ہے
پھر کوئی سانپ رینگتا ہے کہیں
پھر کوئی آشیاں بچاتا ہے
کوئی تاراج کر رہا ہے انہیں
اور کوئی بستیاں بساتا ہے
سعدؔ دریا تھا اپنا دل لیکن
اب کے یہ دشت بنتا جاتا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment