Sunday, 17 August 2014

jab koi ghum mujhe satata hai

jab koi ghum mujhe satata hai



جب کوئی غم مجھے ستاتا ہے
کیوں اسی کا خیال آتا ہے


اک اداسی سے میری پلکوں پر
 اک ستارہ سا جھلملاتا ہے


سامنے میرے ایک منظر ہے
کوئی رہ رہ کے مسکراتا ہے


سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے
وقت آخر تو بیت جاتا ہے


پھر کوئی سانپ رینگتا ہے کہیں
 پھر کوئی آشیاں بچاتا ہے


کوئی تاراج کر رہا ہے انہیں
اور کوئی بستیاں بساتا ہے


سعدؔ دریا تھا اپنا دل لیکن
اب کے یہ دشت بنتا جاتا ہے
٭٭٭

No comments:

Post a Comment