aankh se rooh ka ghum zaher hai
آنکھ سے روح کا غم ظاہر ہے
اس کا ایک ایک ستم ظاہر ہے
بے خیالی میں تمھاری ہی طرف
میرے اٹھیں گے قدم ظاہر ہے
کچھ چھپا لینے سے کیا ہے حاصل
ان کا جتنا ہے کرم ظاہر ہے
دل کے بھیگے ہوئے موسم کی فضا
از روئے دیدہ نم ظاہر ہے
تم بھلا دو گے تو پھر تم کو بھی
بھول ہی جائیں گے ہم ظاہر ہے
No comments:
Post a Comment