jal chuke khuwab to phir aag bhojane aaya
جل چکے خواب تو پھر آگ بجھانے آیا
اک نئے ڈھنگ سے وہ چوٹ لگانے آیا
موم کے پل سے گزر کر مجھے جانا تھا وہاں
اور سورج ہی مرا ساتھ نبھانے آیا
بالمقابل ہے خزاں، آئینہ خندہ زن ہے
شہر ماضی کو بھلا کون بسانے آیا
میرے پیروں تلے آنکھیں جو بچھاتا تھا کبھی
کانچ کی کرچیاں وہ راہ میں سجانے آیا
No comments:
Post a Comment