Jab sitara hi muqadar ki taraf khanchta hai
جب ستارہ ہی مقدر کی طرف کھینچتا ہے
کیا کہیں کون ہے جو شر کی طرف کھینچتا ہے
ٹوٹ جانے میں بھی لذت ہے یقینا کوئی
ورنہ کون آئنہ پتھر کی طرف کھینچتا ہے
میری آنکھوں میں ہے اک سیپ کی صورت شاید
اک گہر مجھ کو سمندر کی طرف کھینچتا ہے
یہ روایت ہے روایت سے کرے کون گری
کوئی پتھر کو مرے سر کی طرف کھینچتا ہے
بس وہی پیار تو مرنے نہیں دیتا مجھ کو
دربدر کو جو کسی در کی طرف کھینچتا ہے
کششِ ثقل کو سمجھا ہے ذرا میں نے بھی
یہ کوئی مجھ کو مرے گھر کی طرف کھینچتا ہے
یہ مرا حسنِ نظر ہے یا ترا حسنِ جمال
دل ہر اک رنگ کو اندر کی طرف کھینچتا ہے
پھر کشش کرتا ہے وہ حرص و ہوس کی جانب
پھر وہی سانپ ہمیں زر کی طرف کھینچتا ہے
No comments:
Post a Comment