apne hone ka yaqeen chahate hain
اپنے ہونے کا یقیں چاہتے ہیں
کچھ نہ کچھ ہم بھی کہیں چاہتے ہیں
ان کے دل صاف نہیں ہو سکتے
وہ جو انصاف نہیں چاہتے ہیں
اپنی بستی بھی ہے جنگل کی طرح
کچھ شکاری کہ کمیں چاہتے ہیں
دل دھڑکتا ہے کسی کی خاطر
سب مکاں کوئی مکیں چاہتے ہیں
لوگ جو سوئے فلک دیکھتے ہیں
اپنے حصے کی زمیں چاہتے ہیں
سرفرازی سے جو واقف ہی نہیں
سر کے اوپر بھی جبیں چاہتے ہیں
سعدؔ وابستہ ہیں اک مرضی سے
اس لیے دنیا و دیں چاہتے ہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment